عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا
ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا
کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
معلوم کِسے تھی یہ تِری خانہ خرابی
میں جانتا ایسا، تو گرفتار نہ ہوتا
عالم کو جلاتی ہے تِری گرمئ مجلس
مرتے ہم اگر سایۂ دیوار نہ ہوتا
اے شیخ! اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہیے تسبیح میں زنار نہ ہوتا
ظالم مِرے حاسد کی تو شادی تھی اس میں
یعنی مجھے در تک بھی تِرے بار نہ ہوتا
دیتے تِری مجلس میں اگر راہ فغاںؔ کو
اس شخص سے ہرگز کوئی بیزار نہ ہوتا
اشرف علی فغاں
No comments:
Post a Comment