Friday, 13 May 2016

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا
ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا
کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
یہ دل میں اگر تھی تو مِرا یار نہ ہوتا
معلوم کِسے تھی یہ تِری خانہ خرابی
میں جانتا ایسا، تو گرفتار نہ ہوتا
عالم کو جلاتی ہے تِری گرمئ مجلس 
مرتے ہم اگر سایۂ دیوار نہ ہوتا
اے شیخ! اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہیے تسبیح میں زنار نہ ہوتا
ظالم مِرے حاسد کی تو شادی تھی اس میں
یعنی مجھے در تک بھی تِرے بار نہ ہوتا
دیتے تِری مجلس میں اگر راہ فغاںؔ کو
اس شخص سے ہرگز کوئی بیزار نہ ہوتا

اشرف علی فغاں

No comments:

Post a Comment