شانِ وفا تو ہے اگر کارِ وفا نہ ہو سکا
سر کو جھکائے رکھ اگر سجدہ ادا نہ ہو سکا
تیرے کرم سے فیضیاب کون گدا نہ ہو سکا
یہ تو مِرا نصیب ہے، میرا بھلا نہ ہو سکا
اپنی نظر سے پوچھ لے میرے جگر سے پوچھ لے
قلبِ فریب خوردہ کو پھر بھی ہے اس کا اعتبار
جس کا کہ آج تک کوئی وعدہ وفا نہ ہو سکا
نخشبِؔ خستہ حال نے کوششیں کیں ہزار ہا
پھر بھی خیالِ حسن و دوست دل سے جدا نہ ہو سکا
نخشب جارچوی
No comments:
Post a Comment