اِتنی تو دیدِ عشق کی تاثیر دیکھیے
جس سمت دیکھیے، تِری تصویر دیکھیے
حد سے بڑھی ہے زلفِ گِرہ گِیر دیکھیے
الجھے کہیں نہ پاؤں میں زنجیر دیکھیے
اب کے کچھ اور ہی دلِ وحشی کا رنگ ہے
پھر دیکھ لیجیے گا کسی وقت آئینہ
اس دم تو سُوئے عاشقِ دلگیر دیکھیے
ذکرِ رقیب عاشقِ شیدا کے سامنے
اچھی نہیں یہ آپ کی تقریر دیکھیے
جنگل کی راہ لوں گا گریبان پھاڑ کے
آنے میں آپ کرتے ہیں تاخیر دیکھیے
کیا کیا ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے اے صباؔ
کیا کیا دکھاتی ہے ابھی تقدیر دیکھیے
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment