یہی دھڑکا مِرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مِرے اثبات کو اِنکار سے باندھا ہوا ہے
مِرے ہاتھوں میں کیلیں گاڑھ رکھی ہیں کسی نے
مِرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے
یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر
حویلی میں مِرے اجداد رہتے تھے مگر اب
اَنا کے سانپ کو دستار سے باندھا ہوا ہے
مجھے واپس اسی جنگل میں جانا ہے کسی دن
مجھے تہذیب نے بازار سے باندھا ہوا ہے
میں اس کو سر اٹھا کر دیکھنا تو چاہتا ہوں
مگر کندھوں کواس نے بار سے باندھا ہوا ہے
مجھے ہر گام ہے تازہ ہزیمت عمر بھرکی
کہ میں نے آئینہ کردار سے باندھا ہوا ہے
حیا داری کے دھاگے نے پِرو رکھا ہے خالدؔ
بھرم نے مجھ کو میرے یار سے باندھا ہوا ہے
خالد کرار
No comments:
Post a Comment