Thursday, 12 May 2016

ہرے کھیتوں کو سوکھے کی نشانی دے کے آئی ہے

ہرے کھیتوں کو سوکھے کی نشانی دے کے آئی ہے
یہ برکھا جانے کن پودوں کو پانی دے کے آئی ہے
وہ جن کی نرمئ گفتار سے شادابیاں برسیں
انہیں فصلوں کو اب شعلہ بیانی دے کے آئی ہے
اتار آئی گھٹاؤں کو سمندر کی ہتھیلی پر
کنول کے پھول تاروں کو سیانی دے کے آئی ہے
منڈیروں پر رکھ آئی صبح ہی سے پیاس سورج کی
کسی آنگن کو بھوکی زندگانی دے کے آئی ہے
جواں پچھلے برس تھی باڑھ سے پوچھے کوئی بیکلؔ
مگر اس بار کس کو نوجوانی دے کے آئی ہے

بیکل اتساہی

No comments:

Post a Comment