ہرے کھیتوں کو سوکھے کی نشانی دے کے آئی ہے
یہ برکھا جانے کن پودوں کو پانی دے کے آئی ہے
وہ جن کی نرمئ گفتار سے شادابیاں برسیں
انہیں فصلوں کو اب شعلہ بیانی دے کے آئی ہے
اتار آئی گھٹاؤں کو سمندر کی ہتھیلی پر
منڈیروں پر رکھ آئی صبح ہی سے پیاس سورج کی
کسی آنگن کو بھوکی زندگانی دے کے آئی ہے
جواں پچھلے برس تھی باڑھ سے پوچھے کوئی بیکلؔ
مگر اس بار کس کو نوجوانی دے کے آئی ہے
بیکل اتساہی
No comments:
Post a Comment