کیا فِکر جو دشمن ہیں مِرے یار غزل کے
مدّاح بھی مِل جائیں گے دو چار غزل کے
اسلُوب کے طوفان میں مضمون کی کشتی
اللہ اتارے گا،۔ مجھے پار غزل کے
طوفان ہو سینے میں مگر لب پہ خموشی
دنیا کی عنایت ہو، کہ ہو تیری نوازش
خالی نہیں جاتے ہیں کبھی وار غزل کے
دونوں میں حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہے
ہوتے ہیں سخن فہم طرفدار غزل کے
الفاظ کے الفاظ معانی کے معانی
ہشیار بڑے ہوتے ہیں فنکار غزل کے
وہ میر کا اسلوب، وہ غالب کا سلیقہ
پہلے نہ تھے انداز دلآزار غزل کے
وہ بحر و قوافی وہ ردیفیں وہ زمینیں
دلچسپ بڑے ہوتے ہیں کردار غزل کے
سو بار یہ سوچا کہ بس اب نظم لکھیں گے
چکر میں مگر آ گئے ہر بار غزل کے
بازار میں ہر شخص قصیدے کا طلبگار
ہم ہیں کہ لیے پھرتے ہیں اشعار غزل کے
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment