Thursday 19 May 2016

جنوں کا راز محبت کا بھید پا نہ سکی

جنوں کا راز، محبت کا بھید پا نہ سکی
ہمارا ساتھ یہ دنیا، مگر نبھا نہ سکی
بکھر گیا ہوں فضاؤں میں بوئے گل کی طرح
مِرے وجود میں وسعت مِری سما نہ سکی
ہر اک قدم پہ صلیب آشنا ملے مجھ کو
یہ کائنات وفاؤں کا بار اٹھا نہ سکی
پٹک کے رہ گئی سر اپنا رہگزاروں سے
مِری صدا، دلِ کہسار میں سما نہ سکی
کھلی ہوا کی فصیلوں میں زندگی ہے اسیر
فریبِ رنگ سے ماحول کو بسا نہ سکی
رضاؔ طلوعِ سحر تک ہے زندگی شب کی
یہ بات اہلِ ستم کی سمجھ میں آ نہ سکی

رضا ہمدانی

No comments:

Post a Comment