Thursday 12 May 2016

غصے سے اٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر

غصے سے اٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
یارب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر
منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے
آۓ ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر
غالب کہ دیوے قوتِ دل اس ضعیف کو
تنکے کو جو دکھاوے ہے پل میں پہاڑ کر
نکلیں گے کام دل کے کچھ اب اہلِ رِیش سے
کچھ ڈھیر کر چکے ہیں یہ آگے اکھاڑ کر
اس فن کے پہلوانوں سے کشتی رہی ہے میرؔ
بہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے پچھاڑ کر

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment