تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا
مانند ہوا پھاند کے دیوار گیا تھا
پھرتا ہوں میں بیدل مِرا دل کیوں نہیں دیتے
کیا تم سے جوا کھیل کے میں ہار گیا تھا
سودے کو نہ پوچھ آیا تھا تو ناز سے جس دن
گیسو ترا اس دن مِرے سر مار گیا تھا
دل سے نہ سہی آئے تو میت پہ وہ آخر
آتے نہ تو مرنا مِرا بے کار گیا تھا
خود میں نے جتایا ہے اسے حشر کا میداں
مشہد ہی سے میں اس کا طرف دار گیا تھا
برچھا تھا کہ تیر اپنی نظر سے یہ ذرا پوچھ
سینے میں کچھ اس پار سے اس پار گیا تھا
مجبور ہوا وہ جو پڑا زلف کا پھندا
شوقؔ اس کے وہاں ہو کے گرفتار گیا تھا
مانند ہوا پھاند کے دیوار گیا تھا
پھرتا ہوں میں بیدل مِرا دل کیوں نہیں دیتے
کیا تم سے جوا کھیل کے میں ہار گیا تھا
سودے کو نہ پوچھ آیا تھا تو ناز سے جس دن
گیسو ترا اس دن مِرے سر مار گیا تھا
دل سے نہ سہی آئے تو میت پہ وہ آخر
آتے نہ تو مرنا مِرا بے کار گیا تھا
خود میں نے جتایا ہے اسے حشر کا میداں
مشہد ہی سے میں اس کا طرف دار گیا تھا
برچھا تھا کہ تیر اپنی نظر سے یہ ذرا پوچھ
سینے میں کچھ اس پار سے اس پار گیا تھا
مجبور ہوا وہ جو پڑا زلف کا پھندا
شوقؔ اس کے وہاں ہو کے گرفتار گیا تھا
شوق قدوائی
No comments:
Post a Comment