اڑاتے آۓ ہو کیا اپنے خواب زار کی خاک
یہ اور خاک ہے، اک دشتِ بے کنار کی خاک
ڈرا رہے ہو سفر کی صعوبتوں سے ہمیں
تمہارے منہ میں بھی خاک اور رہگزار کی خاک
یہ میں نہیں ہوں تو پھر کس کی آمد آمد ہے
ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا،۔ مگر
اڑا کے آئے ہیں وحشت میں بیشمار کی خاک
ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں،۔۔۔ لیکن
سروں سے اب بھی نکلتی ہے رہگزار کی خاک
سنا ہے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کب سے کُوزہ گراں
ہماری آنکھ کا پانی، تِرے دیار کی خاک
یہ حال ہے کہ ابھی سے کھنک رہے ہیں ظروف
ابھی گُندھی نہیں جن میں سے بے شمار کی خاک
عجب نہیں کہ مجھے زندہ گاڑنے والے
کل آ کے پھانک رہے ہوں مِرے مزار کی خاک
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment