نظم
نیلی جھیل کنارے ہے اس بھید بھری کا گاؤں
نین نقش میں جس کے چمکے ٹھنڈی میٹھی چھاؤں
روپ سروپ سراپا کندن، کیا ماتھا، کیا پاؤں
عشق کی کومل تال پہ ہم تھے کتنے مست مگن
رنگ، بہار، گلاب، پرندے، چاند، شراب، پَوَن
وقت پھر آگے ایسا آیا، پیچھے پڑ گئے لوگ
آنکھ جھپکتے کھو گیا سب کچھ، باقی رہ گیا سوگ
چاٹ گیا ساری خوشیوں کو ہجر کا ظالم روگ
یاد کی سبز منڈیر پہ چمکیں اس کے نین چراغ
رنگ برنگ لگا ہے دل پر زخموں کا اک باغ
ربط کی ڈور کہاں سے ٹوٹی، ملتا نہیں سراغ
شام ڈھلے جب ہو جاتی ہے دل بستی ویران
سانسیں گم سم، دھڑکن چپ چپ اور آنکھیں سنسان
گھور اندھیری رات میں چمکے اس پگلی کا دھیان
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment