عمر بھر کوئی بھی احسان نہ کرتے مجھ پر
میرے احباب مگر ایسے نہ ہنستے مجھ پر
فیصلہ کرتے ہوئے خوش تھا تو خوش ہی رہتا
اسکی آنکھوں سے کبھی اشک نہ گرتے مجھ پر
تم بھی مقتل میں چلے آتے تو اچھا ہوتا
لوگ بے رحم تھے الزام مجھے دیتے رہے
تیرے ہاتھوں کے یہ پتھر تو نہ آتے مجھ پر
کتنا مشکل تھا نبھانا جو نبھا آیا ہوں
اس تعلق نے کئی ہاتھ اٹھائے مجھ پر
ایک دیوار سے مانگا تھا گھڑی بھر سایہ
اس نے پھینکے ہیں بھڑکتے ہوئے شعلے مجھ پر
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment