Saturday, 28 May 2016

عمر بھر کوئی بھی احسان نہ کرتے مجھ پر

عمر بھر کوئی بھی احسان نہ کرتے مجھ پر
میرے احباب مگر ایسے نہ ہنستے مجھ پر
فیصلہ کرتے ہوئے خوش تھا تو خوش ہی رہتا
اسکی آنکھوں سے کبھی اشک نہ گرتے مجھ پر
تم بھی مقتل میں چلے آتے تو اچھا ہوتا
چند احسان تمہارے بھی تو ہوتے مجھ پر
لوگ بے رحم تھے الزام مجھے دیتے رہے
تیرے ہاتھوں کے یہ پتھر تو نہ آتے مجھ پر
کتنا مشکل تھا نبھانا جو نبھا آیا ہوں
اس تعلق نے کئی ہاتھ اٹھائے مجھ پر
ایک دیوار سے مانگا تھا گھڑی بھر سایہ
اس نے پھینکے ہیں بھڑکتے ہوئے شعلے مجھ پر

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment