تا عمر سنی قضا کی دستک
زنجیر تھی آشنا کی دستک
پھر ظلِ الہیٰ کے در پہ چمکی
تپتی ہوئی اک صدا کی دستک
مجھ برف مکاں سے کوئی پوچھے
مصروف تھے لذتِ بقا میں
آئی تو وہی فنا کی دستک
ایک حرف میں ساری روشنائی
ایک در اور کجا کجا کی دستک
عطا شاد
No comments:
Post a Comment