لفظوں کو توڑ پھوڑ کے قابل ہوئے ہیں آپ
عالم سمجھ رہے ہیں کہ جاہل ہوئے ہیں آپ
یادوں کی زعفران ہے کشمیر کی طرح
جب سے ہماری زیست میں داخل ہوئے ہیں آپ
یہ ابتداۓ عشق ہے، کیا کچھ بیاں کریں
مقتول یوں نہ ہوتا رفاقت کا سلسلہ
قاتل ہوۓ ہیں ہم، کبھی قاتل ہوئے ہیں آپ
ہچکولے کھاتی ناؤ کو گرداب کیا کرے
طوفان و مد و جذر میں ساحل ہوئے ہیں آپ
سب کچھ ہے اسکے پاس مگر دل نہیں ہے دوست
اخترؔ یہ کس امیر کے سائل ہوئے ہیں آپ
کلیم اختر
No comments:
Post a Comment