زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی
جاری ہے ابھی گردشِ پا، سہمی ہوئی سی
دل ٹوٹ تو جاتا ہے، پہ گِریہ نہیں کرتا
کیا ڈر ہے کہ رہتی ہے وفا سہمی ہوئی سی
اٹھ جائے نظر بھُول کے گر جانبِ افلاک
ہاں ہنس لو رفیقو! کبھی دیکھی نہیں تم نے
نم ناک نگاہوں میں حیا سہمی ہوئی سی
ہر لقمے پہ کھٹکا ہے کہیں یہ بھی نہ چھِن جائے
معدے میں اترتی ہے غذا، سہمی ہوئی سی
اٹھتی تو ہے سو بار، پہ مجھ تک نہیں آتی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا، سہمی ہوئی سی
ہے عرشؔ وہاں آج محیط ایک خموشی
جس راہ سے گزرتی تھی قضا سہمی ہوئی سی
عرش صدیقی
No comments:
Post a Comment