سرخی لبوں کی چھین لے اور پیاس رہنے دے
کچھ دیر کے لیے مجھے حساس رہنے دے
خونِ جگر نکال لے،۔ پانی نچوڑ لے
لیکن متاعِ دل کو مِرے پاس رہنے دے
یہ شاعر غزل کی متاعِ لطیف ہے
گزرے گی پھر بہار اسی راہ سے رقیب
سوکھی ہوئی زمین پہ کچھ گھاس رہنے دے
اخترؔ ہوا سمجھ کے اڑا تو نہ اب اسے
خوشرنگ ایک پھول ہے، بو باس رہنے دے
کلیم اختر
No comments:
Post a Comment