اپنی محبتوں کی خدائی دِیا نہ کر
ہر بے طلب کے ہاتھ کمائی دیا نہ کر
دیتی ہے جب ذرا سی بھی آہٹ اذیتیں
ایسی خموشیوں میں سنائی دیا نہ کر
پہلے ہی حادثات کے اِمکان کم نہیں
نظریں تو پتھروں کو بھی کر جائیں چاک چاک
سج دھج کے بستیوں میں دِکھائی دیا نہ کر
ان موسموں میں پنچھی پلٹتے نہیں سدا
دل کو اداسیوں میں رِہائی دیا نہ کر
آتا نہیں بدلنا جو اندازِ دشمنی
چہرے بدل بدل کے دِکھائی دیا نہ کر
فرحتؔ کوئی تو فرق ہو عام اور خاص میں
ہر ایک آشنا کو رسائی دیا نہ کر
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment