گلے میں آپ کی بانہوں کا ہار باقی ہے
تو پھر مِرے لیے فصلِ بہار باقی ہے
وہ اس نظر سے سرِ بزم دیکھتے ہیں مجھے
کہ جیسے دل پہ مِرے اختیار باقی ہے
وہ جا چکے ہیں اور آنکھوں پہ اعتبار نہیں
غرورِ حسن نے پردے اٹھا دئیے ہیں تو کیا
ابھی مِری نگہِ پردہ دار باقی ہے
یہ مانتا ہوں کہ کانٹا نکل گیا دل سے
مگر ابھی خلشِ نوکِ کار باقی ہے
جمیلؔ آج بھی اک گھونٹ پی نہیں سکتے
تِری نشیلی نظر کا خمار باقی ہے
جمیل مظہری
No comments:
Post a Comment