Friday, 13 May 2016

میں یوں شکوہ نہیں کرتا مجھے گر مات بھی ہوتی

میں یوں شکوہ نہیں کرتا مجھے گر مات بھی ہوتی
شکستہ پر اگر ہوتا تو کوئی بات بھی ہوتی
سفر کی دھند آنکھوں میں کئی نقشے بناتی ہے
مگرشہپر یہ کہتے ہیں کہیں اب رات بھی ہوتی
ہمیشہ دوستوں سے اپنے میں ہی جیت جاتا ہوں
مقابل آئینہ ہوتا کبھی تو مات بھی ہوتی
مِرا عجزِ بیاں ہی ہے کہ وہ خاموش ہے اب تک
نہیں تو سنگ آنکھوں سے کبھی برسات بھی ہوتی
سفر کی دھوپ میں لوگو! جسے اپنا سمجھ بیٹھے
اگر عالی نسب ہوتا،۔۔ تو اعلیٰ ذات بھی ہوتی
جھٹکنا خواب پلکوں سے تمہارا کھیل ہے عادلؔ
مگر اک پورا ہو جاتا تو کوئی بات بھی ہوتی

 عادل حیات

No comments:

Post a Comment