میں یوں شکوہ نہیں کرتا مجھے گر مات بھی ہوتی
شکستہ پر اگر ہوتا تو کوئی بات بھی ہوتی
سفر کی دھند آنکھوں میں کئی نقشے بناتی ہے
مگرشہپر یہ کہتے ہیں کہیں اب رات بھی ہوتی
ہمیشہ دوستوں سے اپنے میں ہی جیت جاتا ہوں
مِرا عجزِ بیاں ہی ہے کہ وہ خاموش ہے اب تک
نہیں تو سنگ آنکھوں سے کبھی برسات بھی ہوتی
سفر کی دھوپ میں لوگو! جسے اپنا سمجھ بیٹھے
اگر عالی نسب ہوتا،۔۔ تو اعلیٰ ذات بھی ہوتی
جھٹکنا خواب پلکوں سے تمہارا کھیل ہے عادلؔ
مگر اک پورا ہو جاتا تو کوئی بات بھی ہوتی
عادل حیات
No comments:
Post a Comment