Thursday, 12 May 2016

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہُوا
مگر یہ دل تِری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرمِ محبت کہ جس پہ دل نے مِرے
سزا بھی پائی نہیں،۔ اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کُوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملے کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment