Sunday 29 May 2016

ایک اور رات

ایک اور رات

رات چُپ چاپ دبے پاؤں چلی جاتی ہے
صرف خاموش ہے، روتی نہیں، ہنستی بھی نہیں
کانچ کا نیلا سا گُنبد بھی اُڑا جاتا ہے
خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے
چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں
چاند کی چِکنی ڈَلی ہے کہ گھُلی جاتی ہے
اور سناٹوں کی اِک دھُول اُڑی جا رہی ہے
کاش اِک بار کبھی نیند سے اُٹھ کر تم بھی
ہجر کی راتوں میں یہ دیکھو تو کیا ہوتا ہے

گلزار

No comments:

Post a Comment