جنم جنم کی پیاس بجھائے، ایک سلگتی آس دل سیلابِ طلب بولان ہو جیسے
برق گرے، یا شعلے برسیں، پھر بھی رہے شاداب یہ تشنہ کشتِ طرب بولان ہو جیسے
زلزلہ در داماں ہے، لیکن خاک بسر ہے چاک گریباں زخمِ غمِ احساس سے چور
صدیوں کا محروم، ہزاروں عمروں کا ناکام وہ اک انسان کہ اب بولان ہو جیسے
بچھڑے ہوئے ساتھی نہ ملے پھر، آتے جاتے موسم بھی ناکام رہے، پر جانے کیوں
عطا شاد
No comments:
Post a Comment