Tuesday 17 May 2016

برسوں ترا رقیب رہا، بے وفا نہیں

برسوں تِرا رقیب رہا، بے وفا نہیں
پھر کیا سبب کہ تُو مجھے پہچانتا نہیں
کیا بات، کیا قصور، مِرا کیا گناہ ہے
میں دیکھتا ہوں پیار سے تو دیکھتا نہیں
کس منہ سے دوں حساب غمِ داغِ جرم کا
ننگِ بدن تھا کوئی فرشتہ تو تھا نہیں
یوں کشمکش میں رات ہماری گزر گئی
میں نے کہا نہیں، کبھی اس نے کہا نہیں
اپنی ہوا بھی آج ہواؤں سے مِل گئی
ہم جس ہوا کو باندھتے تھے وہ ہوا نہیں
‘‘بادِ صبا جلانے چلی ’’برقِ سوزِ غم 
آب و ہوا ہے، آگ ہے، کیا ہے، پتہ نہیں
انجم تھے، چاندنی تھے کہ بدر و ہلال تھے
کس کس ادا میں آپ تھے شب بھر پتہ نہیں
آنکھوں میں اسکی یاد کی تصویرِ غم نہ ہو
ایسا ہوا نہیں،۔۔۔ کبھی ایسا ہوا نہیں 

کلیم اختر

No comments:

Post a Comment