Thursday 12 May 2016

سلا رہا تھا نہ بیدار کر سکا تھا مجھے

سُلا رہا تھا، نہ بیدار کر سکا تھا مجھے
وہ جیسے خواب میں محسوس کر رہا تھا مجھے
یہی تھا چاند،۔ اور اس کو گواہ ٹھہرا کر 
ذرا سا یاد تو کر، تُو نے کیا کہا تھا مجھے
تمام رات میری خواب گاہ روشن تھی
کسی نے خواب میں اک پھول دے دیا تھا مجھے 
وہ دن بھی آئے کہ خوشبو سے میری آنکھ کھُلی 
اور ایک رنگ حقیقت میں چھُو رہا تھا مجھے 
میں اپنی خاک پہ کیسے نہ لوٹ کر آتی 
بہت قریب سے کوئی پکارتا تھا مجھے 
درونِ خیمہ ہی میرا قیام رہنا تھا
تو میرِ فوج نے لشکر میں کیوں لیا تھا مجھے​

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment