Friday 6 May 2016

جب میں دنیا کے لئے بیچ کے گھر آیا تھا

جب میں دنیا کے لیے بیچ کے گھر آیا تھا
ان دنوں بھی مِرے حصے میں صِفر آیا تھا
کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو جھُلس ہی جاتا
آگ اگلتا ہوا سورج مِرے گھر آیا تھا
آج سڑکوں پہ تصویر بناتے رہیے
انگلیاں ٹوٹ چکیں جب یہ ہنر آیا تھا
جو کبھی ہوتا ہے صدیوں میں منور اک بار
وہ دِیا مجھ کو کئی بار نظر آیا تھا
لوگ پیپل کے درختوں کو خدا کہنے لگے
میں ذرا دھوپ سے بچنے کو ادھر آیا تھا

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment