جب میں دنیا کے لیے بیچ کے گھر آیا تھا
ان دنوں بھی مِرے حصے میں صِفر آیا تھا
کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو جھُلس ہی جاتا
آگ اگلتا ہوا سورج مِرے گھر آیا تھا
آج سڑکوں پہ تصویر بناتے رہیے
جو کبھی ہوتا ہے صدیوں میں منور اک بار
وہ دِیا مجھ کو کئی بار نظر آیا تھا
لوگ پیپل کے درختوں کو خدا کہنے لگے
میں ذرا دھوپ سے بچنے کو ادھر آیا تھا
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment