ورودِ جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا
لہو میں اترا، مگر زہر آب ہونے لگا
کوئ تو آۓ، سناۓ نویدِ تازہ مجھے
اٹھو کہ حشر سے پہلے حساب ہونے لگا
اسے یہ شک ہے جھلس جائیگا وہ ساتھ میرے
پھر اس کے سامنے چپ کی کڑی لبوں پہ لگی
مِرا یہ منصبِ حرف آب آب ہو نے لگا
میں اپنے خول میں خوش بھی تھا مطمئن بھی تھا
میں اپنی خاک سے نکلا خراب ہونے لگا
ضرور مجھ سے زیادہ ہے اس میں کچھ خالدؔ
مِرا حریف اگر فتح یاب ہونے لگا
خالد کرار
No comments:
Post a Comment