اب اپنی ذات سے آگے سفر کِیا جائے
ہر ایک مرحلۂ درد سر کِیا جائے
شکارِ کم نظری کیوں ہو کوئی میری طرح
کشادہ زاویۂ ہر نظر کِیا جائے
رہی ہے اپنی روش مختلف تو پھر ہر کام
فضائے شہرِ ستم کچھ نہ کچھ تو بدلے گی
جو بے اثر ہیں،۔ انہیں با اثر کِیا جائے
نگاہِ مفتی و منصف سے ڈرتے رہنا کیا
تمام کارِ جنوں بے خطر کِیا جائے
اگر سپاہِ شبِ تِیرہ روک دے ہم کو
تو نصب خیمہ سرِ رہگزر کِیا جائے
غزل کی شرط ہے قیصرؔ کہ گفتگو اپنی
طویل ہو تو اسے مختصر کِیا جائے
قیصر شمیم
No comments:
Post a Comment