Friday, 13 May 2016

دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو

دروازہ تِرے شہر کا وا چاہیے مجھ کو
جینا ہے مجھے، تازہ ہوا چاہیے مجھ کو
آزار بھی تھے سب سے زیادہ مِری جاں پر
الطاف بھی اوروں سے سوا چاہیے مجھ کو
وہ گرم ہوائیں ہیں کہ کھلتی نہیں آنکھیں
صحرا میں ہوں بادل کی رِدا چاہیے مجھ کو
لب سی کے مِرے تُو نے دِیے فیصلے سارے
اک بار تو بے درد سنا چاہیے مجھ کو
سب ختم ہوئے چاہ کے اور خبط کے قصے
اب پوچھنے آئے ہو کہ کیا چاہیے مجھ کو
ہاں چھُوٹا مِرے ہاتھ سے اقرار کا دامن
ہاں جرمِ ضعیفی کی سزا چاہیے مجھ کو
محبوس ہے گنبد میں کبوتر مِری جاں کا
اڑنے کو فلک بوس فضا چاہیے مجھ کو
میں پیروئ اہلِ سیاست نہیں کرتا
اک راستہ ان سب سے جدا چاہیے مجھ کو
وہ شور تھا محفل میں کہ چِلا اٹھا واعظ
اک جام مۓ ہوش ربا چاہیے مجھ کو
تقصیر نہیں عرشؔ کوئی سامنے پھر بھی
جیتا ہوں تو جینے کی سزا چاہیے مجھ کو

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment