Friday 6 May 2016

تجھ کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی

تجھ کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی
مِرے سینے میں ہے لرزاں تِری آواز ابھی
اس نے دیکھا ہی نہیں درد کا آغاز ابھی
عشق کو اپنی تمناؤں پہ ہے ناز ابھی
تجھ کو منزل پہ پہنچنے کا ہے دعویٰ ہمدم
مجھ کو انجام نظر آتا ہے آغاز ابھی
کس قدر گوش بر آواز ہے خاموشیٔ شب
کوئی نالہ کہ ہے فریاد کا دَر باز ابھی
مِرے چہرے کی ہنسی، رنگ شکستہ میرا
تیرے اشکوں میں تبسمؔ کا ہے انداز ابھی

صوفی تبسم

No comments:

Post a Comment