تجھ کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی
مِرے سینے میں ہے لرزاں تِری آواز ابھی
اس نے دیکھا ہی نہیں درد کا آغاز ابھی
عشق کو اپنی تمناؤں پہ ہے ناز ابھی
تجھ کو منزل پہ پہنچنے کا ہے دعویٰ ہمدم
کس قدر گوش بر آواز ہے خاموشیٔ شب
کوئی نالہ کہ ہے فریاد کا دَر باز ابھی
مِرے چہرے کی ہنسی، رنگ شکستہ میرا
تیرے اشکوں میں تبسمؔ کا ہے انداز ابھی
صوفی تبسم
No comments:
Post a Comment