کچھ اور گمرہئ دل کا راز کیا ہو گا
اک اجنبی تھا کہیں راہ میں کھو گیا ہو گا
وہ جنکی رات تمہارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہو گے، کیا ہوا ہو گا
اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
تمہارے دل میں میری یاد کا پرتو
وہ ایک ہلکا سا بادل تھا، چھَٹ گیا ہو گا
وفا نہ کی نہ سہی، یہ بھی یاد ہے مجھ کو
کوئی جفا کو بھی تیرے ترس رہا ہو گا
غمِ جدائی میں ایسی کہاں تھی لذتِ درد
انہیں بھی مجھ سے بچھڑنے کا دکھ ہوا ہو گا
صوفی تبسم
No comments:
Post a Comment