دِیے جلائے تو انجام کیا ہُوا میرا
لکھا ہے تیز ہواؤں نے مرثیہ میرا
کہیں شریف نمازی، کہیں فریبی پیر
قبیلہ میرا، نسب میرا، سلسلہ میرا
میں چاہتا تھا، غزل آسمان ہو جائے
اسے خبر ہے کہ میں حرف حرف سورج ہوں
وہ شخص، پڑھتا رہا ہے لکھا ہُوا میرا
کسی نے زہر کہا ہے، کسی نے شہد کہا
کوئی سمجھ نہیں پاتا ہے، ذائقہ میرا
میں پتھروں کی طرح گونگے سامعین میں تھا
مجھے سناتے رہے لوگ، واقعہ میرا
بلندیوں کی سفر میں، یہ دھیان آتا ہے
زمین دیکھ رہی ہو گی، راستہ میرا
میں جنگ جیت چکا ہوں، مگر یہ الجھن ہے
اب، اپنے آپ سے ہو گا مقابلہ میرا
کھنچا، کھنچا میں رہا خود سے جانے کیوں ورنہ
بہت زیادہ نہ تھا، مجھ سے فاصلہ میرا
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment