Monday 23 May 2016

کوئی کس طرح رازِ الفت چھپائے

کوئی کس طرح رازِ الفت چھپائے
نگاہیں ملیں، اور قدم ڈگمگائے
وہ مجبوریوں پر مِری مسکرائے
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے
محبت میں کچھ اتفاقات بھی تھے
کہ جو میری تقدیر بننے نہ پائے
تِرا غم بھلا کیا چھپائے سے چھپتا
بہت اشک روکے، بہت مسکرائے
وہ اس طرح میرے برابر سے گزرے
ادائیں سنبھالے،۔ نگاہیں جھکائے
زمانے کے جور و ستم، توبہ توبہ
کہ اکثر تو مجھ کو نہ تم یاد آئے
تِرے رو برو گر نظر مطمئن ہو
تو سینے میں دل بھی دھڑکے نہ پائے
میں اس احتیاطِ نظر کے تصدق 
نہ بے گانہ سمجھے، نہ اپنا بنائے
یہی تو جوابِ شکایت تھا نخشبؔ
مِرے شعر اس نے مجھی کو سنائے

نخشب جارچوی

No comments:

Post a Comment