رہنے والے تھے یہ نادان کہ جانے والے
خاک سمجھے نہ مکانوں کے بنانے والے
اٹھ کے پہلو سے کدھر آپ ہیں جانے والے
جگر و دل ہیں تڑپ کر نکل آنے والے
ایک اک سرو ہے شاہد چمنِ عالم کا
کوئ غصے میں تِری آنکھوں کے تیور دیکھے
شیر بن کر یہی آہو ہیں ڈرانے والے
حال قارون کا قرآن کو لے کر دیکھیں
اژدھا بن کے جو بیٹھے ہیں خزانے والے
حالِ دل کہیے تو کس طنز سے وہ کہتے ہیں
مر گئے عاشقِ نالاں تو کہا اس بت نے
سو گئے، فتنۂ محشر کو جگانے والے
تم سلامت رہو، الفت کے جتانے والے
حالِ دل شب کو جو کہنے گئے، فرمایا
لیجیے، آئے مِری نیند اڑانے والے
کوچۂ عشق کی راہیں کوئ ہم سے پوچے
خضرؑ کیا جانیں غریب اگلے زمانے والے
اے صباؔ حشر کو ہم رند یہ کہتے اٹھے
المدد ساغرِ کوثر کے پلانے والے
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment