Wednesday, 11 May 2016

رہنے والے تھے یہ نادان کہ جانے والے

رہنے والے تھے یہ نادان کہ جانے والے
خاک سمجھے نہ مکانوں کے بنانے والے
اٹھ کے پہلو سے کدھر آپ ہیں جانے والے
جگر و دل ہیں تڑپ کر نکل آنے والے
ایک اک سرو ہے شاہد چمنِ عالم کا
خاک میں مل گئے کیا کیا سر اٹھانے والے
کوئ غصے میں تِری آنکھوں کے تیور دیکھے
شیر بن کر یہی آہو ہیں ڈرانے والے
حال قارون کا قرآن کو لے کر دیکھیں
اژدھا بن کے جو بیٹھے ہیں خزانے والے
حالِ دل کہیے تو کس طنز سے وہ کہتے ہیں
مر گئے عاشقِ نالاں تو کہا اس بت نے
سو گئے، فتنۂ محشر کو جگانے والے
تم سلامت رہو، الفت کے جتانے والے
حالِ دل شب کو جو کہنے گئے، فرمایا
لیجیے، آئے مِری نیند اڑانے والے
کوچۂ عشق کی راہیں کوئ ہم سے پوچے
خضرؑ کیا جانیں غریب اگلے زمانے والے
اے صباؔ حشر کو ہم رند یہ کہتے اٹھے
المدد ساغرِ کوثر کے پلانے والے

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment