کوئ صورت نہیں بچنے کی، وہ آفت آئی
کس قیامت کی بلائے شبِ فرقت آئی
مر گئے پر جو مجھے یاد وہ قامت آئی
ناز کرتی ہوئی مرقد پہ قیامت آئی
یار کو حسن ملا، بغض و حسد غیروں کو
ہم وہ مے کش تھے اسے قلقلِ مِینا سمجھے
ایک ہچکی سی جو ہم کو دمِ رحلت آئی
بات رکھ لی دلِ ناکام نے مرتے مرتے
تا لبِ گور زباں پر نہ شکایت آئی
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment