Friday, 13 May 2016

خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں

خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں
لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر! کہیں
بادِ صبا توں عقدہ کشا اس کی ہو جیو
مجھ سا گرفتہ دل اگر آوے نظر کہیں
اتنا وفور خوش نہیں آتا ہے اشک کا
عالم کو مت ڈبوئیو اے چشمِ تر! کہیں
میری طرف سے خاطرِ صیاد جمع ہے
کیا اڑ سکے گا طائرِ بے بال و پَر کہیں
تیری گلی میں خاک بھی چھانی کہ دل ملے
ایسا ہی گم ہوا کہ نہ آیا نظر کہیں
رونا جہاں تلک تھا مِری جان رو چکا
مطلق نہیں ہے چشم میں نم کا اثر کہیں
باور اگر تجھے نہیں آتا تو دیکھ لے
آنسو کہیں ڈھلک گئے لختِ جگر کہیں
ایذا فغاںؔ کے حق میں یہاں تک روا نہیں​
ظالم یہ کیا ستم ہے خدا سے بھی ڈر کہیں

اشرف علی فغاں

No comments:

Post a Comment