خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں
لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر! کہیں
بادِ صبا توں عقدہ کشا اس کی ہو جیو
مجھ سا گرفتہ دل اگر آوے نظر کہیں
اتنا وفور خوش نہیں آتا ہے اشک کا
میری طرف سے خاطرِ صیاد جمع ہے
کیا اڑ سکے گا طائرِ بے بال و پَر کہیں
تیری گلی میں خاک بھی چھانی کہ دل ملے
ایسا ہی گم ہوا کہ نہ آیا نظر کہیں
رونا جہاں تلک تھا مِری جان رو چکا
مطلق نہیں ہے چشم میں نم کا اثر کہیں
باور اگر تجھے نہیں آتا تو دیکھ لے
آنسو کہیں ڈھلک گئے لختِ جگر کہیں
ایذا فغاںؔ کے حق میں یہاں تک روا نہیں
ظالم یہ کیا ستم ہے خدا سے بھی ڈر کہیں
اشرف علی فغاں
No comments:
Post a Comment