Wednesday, 11 May 2016

مغتنم ہے باغ عالم کی ہوا دو چار دن

مغتنم ہے باغِ عالم کی ہوا دو چار دن
صورتِ گل ہے یہاں نشوونما دو چار دن
اے بتِ کافر تِری اللہ رے بے پروائیاں
آشنا دو چار دن،۔ نا آشنا دو چار دن
واہ رے وعدہ تِرا، قربان وعدے کے تِرے
ایک دن کے ہو گئے اے بےوفا دو چار دن
مدعائے وصل سن کر وہ صنم کہنے لگا
بیٹھ جا کر مسجد میں کر یادِ خدا دو چار دن
اب تو میرے حال پر لطف و کرم فرمائیے
ہو چکے ہونے جو تھے جوروجفا دو چار دن
وہ پری کہتا ہے دیوانہ بنا کر زلف کا
فصد لو، جا کر کرو اپنی دوا دو چار دن
یہ بڑا اندھیر ہے اِک رات بھی آئے نہ تم
چاندنی کیا کیا ہوئی اے مہ لقا دو چار دن
واہ رے وعدہ تِرا قربان وعدے کے ترے
ایک دن کے ہو گئے اے بے وفا دو چار دن
بادۂ گلگوں چلے ہر روز چل کر باغ میں
موسمِ گل کے یہی ہیں اے صباؔ دو چار دن

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment