Wednesday, 11 May 2016

ہونے لگے ہیں رستے رستے آپس کے ٹکراؤ بہت

ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت
ایک ساتھ کے چلنے والوں میں بھی ہے الگاؤ بہت
بہکے بہکے سے بادل ہے کیا جانے یہ جائیں کدھر
بدلی ہوئی ہواؤں کا ہے ان پر آج دباؤ بہت
سوچ کا ہے یہ پھر کہ یارو! پیچ و خم کی دنیا میں
ڈھونڈ رہے ہو ایسا رستہ جس میں نہیں گھماؤ بہت
اپنے آپ میں الجھی ہوئی اک دنیا ہے ہر شخص یہاں
سلجھے ہوۓ ذہنوں میں بھی ہیں چھپے ہوئے الجھاؤ بہت
میرے عہد کے انسانوں کو پڑھ لینا کوئی کھیل نہیں
اوپر سے ہے میل محبت اندر سے ہے کھنچاؤ بہت

قیصر شمیم

No comments:

Post a Comment