Saturday 7 May 2016

نامہ بر سے نہ ہم صبا سے کہیں

نامہ بر سے نہ ہم صبا سے کہیں
حال دل کا غم آشنا سے کہیں
تم خدا ہو، مگر ہمارے نہیں
جی میں آتا ہے، یہ خدا سے کہیں
حالِ دل سن چکے تو وہ بولے
“آپ افسانہ ابتدا سے کہیں”
لاکھ شکوہ ہو چشمِ ساقی سے
کچھ زباں سے مگر نہ پِیا سے کہیں
بات گلشن میں پھیل جائے گی
راز دل کا نہ ہم صبا سے کہیں
ہم کو حرفِ طلب بھی یاد نہیں
لب پر آئے نہ اب دعا سے کہیں
کب سے ویرانے منتظر ہیں تِرے
ہم نہ برسات کی گھٹا سے کہیں
ہم کھلا راز ہیں نگیں کی طرح
ہم کو دیوانہ وہ بلا سے کہیں 
ہم وہ پروردۂ تلاطم ہیں
ناخدا سے نہ کچھ خدا سے کہیں
دم الٹنے لگا ہے اے ساحرؔ
اب ذرا تھم کے چل، ہوا سے کہیں

ساحر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment