نامہ بر سے نہ ہم صبا سے کہیں
حال دل کا غم آشنا سے کہیں
تم خدا ہو، مگر ہمارے نہیں
جی میں آتا ہے، یہ خدا سے کہیں
حالِ دل سن چکے تو وہ بولے
لاکھ شکوہ ہو چشمِ ساقی سے
کچھ زباں سے مگر نہ پِیا سے کہیں
بات گلشن میں پھیل جائے گی
راز دل کا نہ ہم صبا سے کہیں
ہم کو حرفِ طلب بھی یاد نہیں
لب پر آئے نہ اب دعا سے کہیں
کب سے ویرانے منتظر ہیں تِرے
ہم نہ برسات کی گھٹا سے کہیں
ہم کھلا راز ہیں نگیں کی طرح
ہم کو دیوانہ وہ بلا سے کہیں
ہم وہ پروردۂ تلاطم ہیں
ناخدا سے نہ کچھ خدا سے کہیں
دم الٹنے لگا ہے اے ساحرؔ
اب ذرا تھم کے چل، ہوا سے کہیں
ساحر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment