خواہشِ دل کو بجھے بھی اک زمانا ہو گیا
بے بسی تجھ سے مِرا رشتا پرانا ہو گیا
تھا بہت مشہور وہ اپنے ہنر کے رنگ میں
آج پھر اس سے خطا کیوں ہر نشانا ہو گیا
آؤ پھر دل کی عبادت گاہ مشترکہ بنے
پیڑ کوئی کب خوشامد کا سمایا آنکھ میں
راہ چلتے دھوپ کا منظر سہانا ہو گیا
چھوڑکرآیا ہےگھرکوجب سےعادلؔ شہرمیں
ہر کسی سے رشتا اس کا تاجرانا ہو گیا
عادل حیات
No comments:
Post a Comment