سُن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں
کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صرصر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اجاڑ برجوں میں پھِرتا ہے تُو منیرؔ
وہ زرفشانیاں تِرے رخ کی کِدھر گئیں
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment