شوقِ آشفتہ سراں، دیدۂ تر مانگے ہے
ہے وہ کافر جو شبِ غم کی سحر مانگے ہے
رنگ گل، روئے سحر، بوئے صبا کی سوگند
ہر تماشا مِرا اندازِ نظر مانگے ہے
دل کو اندازِ تغافل کے بھی سائے تھے بہت
دل بدل جاتے ہیں، انسان بدل جاتے ہیں
کوئی دیوانہ وہی شام و سحر مانگے ہے
آپ سے دل کو توقع تھی پزیرائی کی
ہائے نادان کہ پھولوں سے شرر مانگے ہے
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment