Monday 23 May 2016

عجیب جنبش لب ہے خطاب بھی نہ کرے

عجیب جنبشِ لب ہے خطاب بھی نہ کرے
سوال کر کے مجھے لاجواب بھی نہ کرے 
وہ میرے قرب میں دوری کی چاشنی رکھے
مِرے لیے مِرا جینا عذاب بھی نہ کرے 
کبھی کبھی مجھے سیراب کر  کے خوش کر دے
ہمیشہ گمرہِ سحر سراب بھی نہ کرے 
عجیب برزخ الفت میں مجھ کو رکھا ہے
کہ وہ خفا بھی رہے اور عتاب بھی نہ کرے 
وہ انتظار دکھائے اس احتیاط کے ساتھ
کہ میری آنکھوں کو محرومِ خواب بھی نہ کرے 
وہ رات بھر کچھ اس انداز سے کرے باتیں
مجھے جگائے بھی نیندیں خراب بھی نہ کرے 
ہر ایک شعر میں آزرؔ نقوش ہیں اس کے
مگر وہ خود کو کبھی بے نقاب بھی نہ کرے

راشد آزر

No comments:

Post a Comment