Friday 6 May 2016

اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا

اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا
یقینی ہے گھڑی دو میں مریضِ غم کا مر جانا
مجھے ڈر ہے گلوں کے بوجھ سے مرقد نہ دَب جائے
انہیں عادت ہے جب آنا، ضرور احسان دھر جانا
حباب آ سامنے سب ولولے جوش جوانی کے
غضب تھا قلزمِ امید کا چڑھ کر اتر جانا
یہاں جز کشتئ موجِ بلا، کچھ بھی نہ پاؤ گے 
اسی کے آسرے دریائے ہستی سے اتر جانا
مبادا پھر اسیرِ دام عقل و ہوش ہو جاؤں
جنوں کا اس طرح اچھا نہیں حد سے گزر جانا
حفیظؔ آغاز سے انجام تک رہزن نے پہنچایا
اسی کو ہم سفر پایا، اسی کو ہم سفر جانا

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment