Thursday, 12 May 2016

نہ سفیر سلطنت ہوں نہ اسیر حکم شاہی

نہ سفیرِ سلطنت ہوں، نہ اسیرِ حکمِ شاہی
مِرا غم غمِ وطن ہے، میں قلم کا ہوں سپاہی
یہ معاملہ ہے دل کا کبھی فیصلہ تو ہو گا
تِرے ساتھ ہے عدالت، مِرے ساتھ ہے گواہی
نہ فریبِ راہبر سے، نہ سلوکِ راہزن سے
جہاں مطمئن ہُوا ہے وہیں لُٹ گیا ہے راہی
یہ چراغ اور دامن،۔ وہ جمال اور چلمن
یہ شعورِ معصیت ہے، وہ غرورِ بے گناہی

بیکل اتساہی

No comments:

Post a Comment