ہم نے جو راہ منتخب کی ہے
یاد رکھنا بڑے غضب کی ہے
جان کی اپنی، فکر کب کی ہے
ہم نے کس سے اماں طلب کی ہے
جانتے ہیں سبب تباہی کا
عاشقوں کی شناخت ہے کچھ اور
نسل کی ہے نہ وہ نسب کی ہے
بے ادب کیوں وہاں رہے کوئی
شرطِ اول جہاں ادب کی ہے
جس طرف اٹھ گئی، اٹھی ہی رہی
یہ نظر ایک جاں بہ لب کی ہے
اک سہارا اسی کا ہے قیصرؔ
یاد جو دل میں اپنے رب کی ہے
قیصر شمیم
No comments:
Post a Comment