Monday 9 May 2016

دم گھٹے شہر بے حساب ہوا

دم گھُٹے شہر، بے حساب ہَوا
ہے میرے دور کا عذاب ہوا
رات بھر چاہ تھی چراغ چراغ
صبح دم سبز انقلاب ہوا
ان سنی دھڑکنوں کا درد سدا
ان کہی خواہشوں کے خواب ہوا
ہاں تیرے عہد کا قلم، تاریخ
ہاں میری سوچ کی کتاب، ہوا
ہے میری خواہشوں کی خوشبو راکھ
اور تیرے جسم کا گلاب، ہوا
ہم سے پھوٹا عطاؔ یہ جان کا حبس
کہ حباب آب ہے اور آب ہوا

عطا شاد

No comments:

Post a Comment