دم گھُٹے شہر، بے حساب ہَوا
ہے میرے دور کا عذاب ہوا
رات بھر چاہ تھی چراغ چراغ
صبح دم سبز انقلاب ہوا
ان سنی دھڑکنوں کا درد سدا
ہاں تیرے عہد کا قلم، تاریخ
ہاں میری سوچ کی کتاب، ہوا
ہے میری خواہشوں کی خوشبو راکھ
اور تیرے جسم کا گلاب، ہوا
ہم سے پھوٹا عطاؔ یہ جان کا حبس
کہ حباب آب ہے اور آب ہوا
عطا شاد
No comments:
Post a Comment