دشت میں سفر ٹھہرا پھر مِرے سفینے کا
میں نے خواب دیکھا تھا برف کے پگھلنے کا
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
میری نبض چھُو آئے جن کے ہاتھ ہی تھے سُن
اب بھی بند آنکھون میں جھانکتی ہیں کرنیں سی
اب بھی ٹِمٹماتا ہے، اک دِیا دریچے کا
بہہ رہی ہے دریا میں جیسے فصل خیموں کی
نصب تھا نشیبوں میں اختیار جینے کا
اب کی چپ عطاؔ چٹکیں حرف میری سانسوں کے
اب کی چپ دہکتا ہے، حبس رُت بدلنے کا
عطا شاد
No comments:
Post a Comment