Monday, 9 May 2016

دشت میں سفر ٹھہرا پھر مرے سفینے کا

دشت میں سفر ٹھہرا پھر مِرے سفینے کا
میں نے خواب دیکھا تھا برف کے پگھلنے کا
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
میری نبض چھُو آئے جن کے ہاتھ ہی تھے سُن
اور پھر ہُوا چرچا، میرے زخم بھرنے کا
اب بھی بند آنکھون میں جھانکتی ہیں کرنیں سی
اب بھی ٹِمٹماتا ہے، اک دِیا دریچے کا
بہہ رہی ہے دریا میں جیسے فصل خیموں کی
نصب تھا نشیبوں میں اختیار جینے کا
اب کی چپ عطاؔ چٹکیں حرف میری سانسوں کے
اب کی چپ دہکتا ہے، حبس رُت بدلنے کا

عطا شاد

No comments:

Post a Comment