لیے کائنات کی وسعتیں ہے دیارِ دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
نہیں تم تو کوئی غزل ہو کیا، کوئی رنگ و بُو کا بدل ہو کیا
یہ حیات کیا ہو، اجل ہو کیا،۔ نہ کھلی ہوئی نہ چھپی ہوئی
ہے یہ سچ کہ منظرِ خواب ہے، مِرے سامنے جو کتاب ہے
وہی ربطِ عکسِ جمال بھی،۔ وہی خبطِ حسنِ جمال بھی
وہی ضبطِ حزن و ملال بھی شبِ ہجر رسمِ خوشی ہوئی
وہ محل کی چھت پہ جو چاند ہے، خدا جانے کاہے کو ماند ہے
یہ طلسم ہے کسی حسن کا،۔ یا مِری نظر ہے تھکی ہوئی
بیکل اتساہی
No comments:
Post a Comment