Thursday 19 May 2016

چڑھتے ہوئے دریا کی علامت نظر آئے

چڑھتے ہوئے دریا کی علامت نظر آئے
غصے میں وہ کچھ اور قیامت نظر آئے
گم اپنے ہی سائے میں ہیں ہٹ جائیں تو شاید
کھویا ہوا اپنا قد و قامت نظر آئے
کیا قہر ہے ہر سینے میں اک حشر بپا ہے
اک آدھ گریباں تو سلامت نظر آئے
کوچے سے تِرے نکلے تو سب شہر تھا دشمن
ہر آنکھ میں کچھ سنگِ ملامت نظر آئے
ہم کیسے یہ سمجھیں کہ پشیمان ہے قاتل
چہرے پہ نہ جب حرفِ ندامت نظر آئے
ہم موردِ الزام سمجھتے رہے ان کو
دیکھا تو رضاؔ ہم ہی ملامت نظر آئے

رضا ہمدانی

No comments:

Post a Comment