پاس ہے تم کو اگر پچھلی شناسائی کا
آؤ! دہرائیں فسانہ شبِ تنہائی کا
حسن کو شوق ہے گر انجمن آرائی کا
آۓ دیکھے وہ تماشا مِری رسوائی کا
زندگی ! میں تجھے مر مر کے جئے جاتا ہوں
خود پرستی کا یہ الزام،۔عیاذ باللہ
میں تو اک عکس ہوں اس جلوۂ یکتائی کا
کیوں تجھے شام و سحر خدشۂ بدنامی ہے
کون سنتا ہے فسانہ تِرے سودائی کا
گریۂ نیم شبی، آہ و غمِ صبح گہی
اور کیا ذکر ہو اس پیکرِ زیبائی کا
جان سے جا کے ملی فکرِ دو عالم سے نجات
شکریہ آپ کے اعجازِِ مسیحائی کا
کیا سمجھتے ہو تم اپنے کو، بتاؤ! سرورؔ
دعویٰ آخر ہے یہ کس بات پہ دانائی کا
سرور عالم راز
No comments:
Post a Comment